جو لوگ پاگلوں کو بادشاہ بنا لیں

جو لوگ پاگلوں کو بادشاہ بنا لیں

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ زدہ مخصوص سیاسی مینجمنٹ سٹینڈرڈ کو سامنے رکھ کر آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اِس حوالے سے ایک اچھے سیاسی منیجر ثابت ہو رہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے خاندان کی ناقابل شکست شخصیات اور ان کی جماعت ن لیگ کے لیے پہلے سے طے شدہ شرمناک انجام کو سپورٹ دینے کے لیے عمران خان نے ن لیگ والوں پر اکتوبر 2011ء میں لاہور سے جس مادرپدر آزاد گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ بہت کامیاب رہا اور اب تک جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن ایک حد کے بعد یہ جائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے۔ عمران خان کی ن لیگ پر مادرپدر آزاد گولہ باری کی مثال 9/11 کے بعد اتحادی فوجوں کی افغانستان میں کارپٹ بمباری سے دی جاسکتی ہے جس میں یہ پروا نہیں کی گئی تھی کہ بم دشمن کی فوج پر گررہے ہیں یا معصوم بچوں کے سکولوں، ہسپتالوں، خواتین اور بوڑھوں وغیرہ پر۔ یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھی بے زبان چڑیوں کو بھی B-52 بمبار طیاروں کے خوفناک بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ بالکل ایسے ہی عمران خان نے معاشرتی آداب، اخلاقیات اور جھوٹ کی تمام حدیں پار کردیں۔ انہوں نے جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہونے کا نیا مادرپدر آزاد سٹینڈرڈ قائم کیا۔ دیکھا جائے تو یہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ زدہ مخصوص سیاسی ماحول میں عمران خان کے فٹ بیٹھنے کا ثبوت ہے کیونکہ نواز شریف، شہباز شریف اور ن لیگ کے کریڈٹ میں 2018ء سے پہلے اتنا کچھ جمع ہوچکا تھا کہ اسے نارمل انتخابی مہم اور ووٹوں سے شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔ ن لیگ کی اِس کریڈٹ لسٹ میں ترقیاتی کام، ورلڈ گیم چینجر سی پیک، چین ترکی اور روس سے خصوصی تعلقات، ہمسایہ ممالک کے ساتھ نارمل تعلقات کی طرف بڑھتے قدم، انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھی ساکھ حاصل کرلینا، ملک کی معاشی صورتحال کا 
گراف اوپر جانا، جی ڈی پی میں ریکارڈ بہتری آنا، تمام انٹرنیشنل معاشی تجزیوں میں پاکستان کو شاباش ملنا وغیرہ شامل تھے۔ اِن انڈی کیٹرز کے ہوتے ہوئے نواز شریف اور ن لیگ کا وجود دوسروں کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ مختصر یہ کہ نواز شریف اور ن لیگ سے غیرآئینی اقدام کے بغیر چھٹکارہ ممکن نہیں تھا جو اُس وقت کے حالات میں انٹرنیشنل سطح پر ایک ناپسندیدہ عمل تھا۔ دوسری طرف نارمل انتخابات کے ذریعے بھی شریف برادران سے جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ دونمبر کام ایک نمبر طریقے سے کیا جائے۔ اس کے لیے فرنٹ مین کے طور پر کسی ایسی شخصیت کو استعمال کیا جانا ناگزیر تھا جو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر معاشرتی آداب کی ریڈ لائن کو پار کرکے مضبوط سیاسی مخالفین پر مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری کرے۔ اِن فرائض کی انجام دہی کے لیے جب عمران خان کا نام زیرغور آیا ہوگا تو ہوسکتا ہے سلیکٹ کرنے والوں کو عمران خان کی اِن صلاحیتوں پر کوئی شک ہو لیکن اب وہ سب عمران خان کے انتخاب پر فخر کرتے ہوں گے کیونکہ عمران خان کی مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری نے نواز شریف، شہباز شریف اور ن لیگ جیسے سیاسی کوہ ہمالیہ کو سرکرنے کی کوشش کی۔ عمران خان کے اس مخصوص سیاسی ماحول کے لیے فِٹ ہونے کی اِس صلاحیت کو پاکستان کی ہسٹری کے تناظر میں دیکھیں تو سسکی کے ساتھ قہقہہ بھی نکلتا ہے۔ ایک زمانے میں ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو اور نواز شریف وغیرہ بھی ہمارے مخصوص سیاسی ماحول میں فِٹ ہوکر ابھرے تھے لیکن جلد ہی بیک گرائونڈ میں چلے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف جنرل پرویز مشرف مقامی اور انٹرنیشنل طاقت کے سرچشموں کوساتھ لے کر چلے اسی لیے اب تک اُن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ عمران خان بھی دونوں ہاتھوں سے مقامی طاقت کے سرچشموں کی انگلیاں پکڑے چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح ان کے دونوں ہاتھ دوسروں کی گرفت میں ہیں۔ اسی طرح کے دوسرے لیڈروں کے پاس کام کرنے کی صلاحیتیں بھی تھیں لیکن عمران خان کے پاس صرف مخالفین پر مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری کی صلاحیت ہے جس کی اب اتنی ضرورت نہ ہے کیونکہ ن لیگ چوتھی مرتبہ مخصوص سیاسی ماحول میں اچھے سیاسی منیجر کا کردار ادا کرنے کی ابتداء کرچکی ہے۔ ایک پاگل شخص عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اور چیخنے لگا میں چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ لوگ اکٹھے ہوگئے، پولیس والے آگئے، ایمبولینس بھی پہنچ گئی۔ پولیس والا سپیکر میں زور سے بولا نیچے آجائو، گر جائو گے۔ پاگل بولا میں یہاں آم لینے نہیں آیا، چھلانگ لگانے آیا ہوں، پیچھے ہٹ جائو۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ پولیس والے نے پوچھا مگر تم چھلانگ کیوں لگانا چاہتے ہو؟ پاگل نے کہا مجھے بادشاہ بنا دو ورنہ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ پولیس والے نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا بادشاہ سلامت نیچے تشریف لے آئیے، رعایا استقبال کی منتظر ہے۔ لوگ بھی شور مچانے لگے ساڈا بادشاہ زندہ باد، ساڈا بادشاہ زندہ باد۔ پاگل پھر اَڑ گیا میں نیچے نہیں آسکتا، میں چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ پولیس والے نے پریشان ہوکر ادب سے پوچھا مگر کیوں حضور؟ اب تو آپ بادشاہ سلامت بھی بن گئے ہیں۔ پاگل نے جواب دیا جولوگ پاگلوں کو بادشاہ بنا لیں، میں ان میں نہیں رہ سکتا۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں۔ 

مصنف کے بارے میں