’’آئی ایم ایف‘‘،آخر کب تک…؟؟؟

’’آئی ایم ایف‘‘،آخر کب تک…؟؟؟

نئے پاکستان کی حکومت کو گھر بھیجنے والی پرانے پاکستان کی حکومت نے شہراقتدار پر قبضہ سے قبل یا یوں کہہ لیں کہ تحریک اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ عوام کو مہنگائی، بے روز گاری،غربت سے بچانا چاہتے ہیں بلند وبانگ دعوے کیے گئے زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی خوشخبریاں سنائی گئیں لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کے مصداق عوام پرانے پاکستان کی حکومت کو اسی طرح کوس رہے ہیں جیسے نئے پاکستان کی سرکار نے سبز باغ دکھائے اور ہوا کچھ بھی نہیں اورلوگ ریلیف کوترستے رہے اور ساتھ ساتھ جھولیاں اٹھا اٹھا کر’’ تبرے ‘‘بھی دیتے رہے آج نئے اور پرانے پاکستان میں کوئی فرق نہیں بجلی نئے پاکستان کے دور میں بھی روز مہنگی ہوتی تھی اب بھی یہی روش ہے؟پرانے پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال 4ہزار 662میگاواٹ تک جا پہنچا ہے،نئے مالی سال سے بجلی کی بنیادی قیمت میں فی یو نٹ 7.91روپے اضافے سے بلوں پر ٹیکسوں میں بھی5.46روپے فی یو نٹ اضافہ ہو گا جس سے بجلی کی فی یو نٹ قیمت 30.28روپے فی یونٹ ہو جائے گی ،درجہ اول کے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 15 سے 25 روپے کلو کا اضافہ کر دیا گیا۔ درجہ اول گھی کی قیمت 15 روپے اضافے سے 580 روپے کلو جبکہ کوکنگ آئل کی قیمت 25 روپے اضافے سے 590 روپے کلو کر دی گئی، وفاقی بجٹ کے آتے ہی تعمیراتی سامان کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے، سیمنٹ کی بوری میں بجٹ آنے کے بعد 170 روپے اضافہ ہوا، سیمنٹ کی 50 کلو کی بوری کی قیمت 1200 روپے تک پہنچ گئی، تین ماہ میں سیمنٹ کی بوری کی قیمت میں 400 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، بجری بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ اینٹوں کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا جس کے بعد درجہ اول کی اینٹوں کی قیمت 13000 سے بڑھ کر 15000 ہو گئی ہے۔ بھٹہ مالکان کی طرف سے یکم جولائی کو بھٹے بند کرنے کے اعلان کے بعد اینٹوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیاہے دوسری طرف ادارہ شماریات کے مطابق توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 2.67 فیصد بڑھ گئی، آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو بحال کرنے کیلئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے پیش نظر مہنگائی میں اضافہ 144 ہفتوں اور 3 برس میں سب سے زیادہ ہے، ایس پی آئی میں سال بہ سال اضافہ زیر جائزہ ہفتے کے دوران 23.98 فیصد رہا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 59 روپے تک فی لیٹر اضافہ کے اثرات مزید اضافہ کیساتھ نظر آئیں گے پٹرولیم 
مصنوعات میں اضافہ کو بریک نہیں لگے گی جس کا مثردہ وزیرخزانہ سنا چکے ہیں جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کے کئی اقدامات وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے معاشی مشکلات سے نمٹنے کے برعکس نظر آتے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا امکان اس بات سے منسلک ہے کہ وفاقی حکومت بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط پر کیا سخت فیصلے کرتی ہے ، اس سال جو آپ کا افراط زر کا ہدف ہے وہ اوسطاً11.5 
فیصد ہے تو مہنگائی کی شرح15 سے17 فیصد کے قریب رہے گی اس کے اوپر جی ڈی پی گروتھ ریٹ بھی ہے تو آپ کی جی ڈی پی اس سال کوئی 16،17 فیصد گرو کر رہی ہے، پرسنل انکم ٹیکس کا معاملہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک بڑا مسئلہ ہے، طے ہوا تھا کہ جو بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کی اصلاحات کریں گے اور اس کو پروگریسو بنائیں گے 7ہزار 4ارب روپے کا ٹیکس ہدف رکھا گیا ہے جو کم ہے،جس اثاثے سے کوئی آمدنی نہیں ہورہی اس کے اوپر انکم ٹیکس لگانا انکم ٹیکس کے بنیادی اصول سے متصادم ہے ہر حکومت کہتی ہے ہم ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے لیکن ہوتا کچھ نہیں، حکومت نے ٹیکس پیئرز کو بڑھانا ہے انہی ٹیکس پیئرز کو نہیں مارنا ہے جو پہلے ہی لسٹڈ ہیں جس کی شکایت ہمیشہ رہی ہے ،خدشہ ہے کہ کیا یہ بجٹ دوحہ میں آئی ایم ایف سے ہونے والی مفاہمت کے مطابق ہے یا ابھی بیٹھ کر اس پر مغز ماری کریں گے، اگر کوئی بڑا ردوبدل کیا تو یہ ہمارے لیے مشکل کا باعث ہوگا ، حکومت پی ڈی ایل سے 750ارب روپے حاصل کرنا چاہتی ہے تو فی لیٹر پٹرولیم پراڈکٹس پر 30روپے لیوی لگانا ہوگا،شارٹ ٹائم میں اگر پیٹرول کی قیمت میں کمی ہوئی تو ٹیکس میں اضافہ کرکے یہ ٹارگٹ پورا کیا جاسکتا ہے، دنیا بھر میں پیٹرول پر ٹیکس لیا جاتا ہے، مگر یہاں پر قیمت پہلے ہی زیادہ ہے عوام کو مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے سے بہتر ہے کہ ہم دیرپا پالیسیاں بنائیں ،فرسودہ سودی نظام نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ 74 سال سے جاری کشکول مشن کو چھوڑ کر خود کفالت کا راستہ اپنانا ہو گا، پاکستان اس وقت تک بحرانوں سے نہیں نکل سکتا جب تک عوام آئی ایم ایف کے ایجنٹوں اور بار بار آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو مسترد کر کے محب وطن قیادت کو آگے نہیں لاتے ورنہ اسی طرح چہرے تبدیل ہوتے رہیں گے اور ملک اور عوام مزید آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنستا چلا جائے گا۔

مصنف کے بارے میں