فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا۔۔۔۔۔

فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا۔۔۔۔۔

تحریر۔۔۔۔۔محمد اختر خان

 پروفیسرعلی ارشد مِیرصرف استاد نہیں۔صرف شاعر بھی نہیں صرف ایک انسان ہی نہیں بلکہ دھرتی کا اتہاس ہے۔ وہ انسان کی مجسم تاریخ ہے وہ اپنی تاریخ کا منظوم حوالہ اُس کی نظم "نظم دی عمر کوئی اٹھونجا کو ورھے"(ایک نظم کا عنوان) نہیں بلکہ صدیوں پر محیط انسانی تاریخ تہذیب اور کلچر کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔اس کی نظم کی صدیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کی نظم کا خمیر دریائے سرسوتی کی ریتلی مٹی پر بہتے ٹھنڈے پانی سے اٹھتا ہے۔اس کی نظم ہڑپہ کی گلیوں میں رقص کرتی ہے۔علی ارشد میر کی نظم گوتم کے برگد کے سائے میں پروان چڑھتی اس کی نظم شعب ابی طالب میں محصورقدسیوں کے  شہر مکہ کی مقدس خاک کو گوندھ کر ایسی غذا تیار کرتی ہے جس کی طاقت سے مذہبی پیشوائیت سرمایہ داری کے چنگل میں پھنسے انسان کو نور خدا کی روشنی ملتی ہے اور وہ روشنی سارے عالم پھیل جاتی ہے۔علی ارشد مِیر اپنی نظم کو ابوذر غفاری کے قدموں میں رکھ کر اپنا سب کچھ دان کردیتا ہے۔علی ارشد مِیر کی نظم صدیوں کا سفر کرتی کبھی سقراط کبھی افلاطون کے در پر جاتی ہے،نروان تو مکے کی خاک عطا کردیتی ہے،لیکن اس نے ابوذر غفاری کا دامن پکڑ کر سفر جاری رکھنے کی اجازت چاہی۔وہ اپنی نظم کے ساتھ آنے والی صدیوں کا سفر بھی کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنی فکر کے ساتھ کبھی ایتھنز جاتا افلاطون سے مکالمہ کرتا۔سقراط کی اکادمی میں بیٹھتاہے۔سقراط کے ساتھ اس کی نظم سیر افلاک پر نکل پڑتی ہے۔ سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر خود تو ابدی زندگی پالی لیکن اس کے زہر کی کرواہٹ نے علی ارشد مِیر کی نظم کو مزید مضطرب کردیا۔علی ارشد میر کی نظم اتہاس کا سفر کرتی ہڑپہ کی سرزمین پر پھر اترتی ہے۔ تہذیب کا جنم استھان ہڑپہ آج خاکدان بنا کھنڈرات میں بسا ایک اجڑا دیار ہے،علی ارشد میر کی نظم ہڑپہ کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھتی ہے:

”سر سر ہوت نہ ہَنس“
ہَنس مانہہ آپ
سروور مانہہ وِچ وگدی
صدقے مانہہ تھیں واچھڑ مِینہ دی
واری موج ہوا دی
گھت کاٹھی مینڈھے کوسے ساہ تھیں 
رَج تک شکل خْدا دی
اَگے سَت افلاک نظر وِچ
دْھوڑ جْثّے تے راہ دی
زْحل مریخ چ ہتھ پئے لمکن
رہ گئی کسر دْعا دی

 علی ارشد میر کی نظم ایک جرات رندانہ کے ساتھ دوبارہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس کے جسم پر صدیوں کے سفر کی دھول ہے لیکن اس کے قلب و ذہن میں خوف نہیں۔زندگی کا قطرہ قطرہ  نُچڑتا زہر اس کے مغز میں اتنی قوت پیدا کرتا ہے کہ وہ سفر کی خاک کو اپنے مغز میں دہکتی آگ سے اک نعرہ مستانہ لگاتا ہے:

نعرہ مار انا الحق دا
اساں جم دھرتی دا جم
آوے اندر مٹی آگئی
اگ آتش دا دم

 علی ارشد میر کی نظم کا کینوس انتہائی وسیع ہے،اس کی نظم تاریخ اور فلسفے کا دامن پکڑے ایک مضبوط انسان تخلیق کرتی نظر آتی ہے۔ اس کی نظم میں صوفیت کا تخلیق کردہ کوئی مظلوم انسان نظر نہیں آتا اور نہ ہی علی ارشد میر صوفیت کا شاعر ہے۔ عام طور پر منصور حلاج کے نعرہ انا الحق کو وجودیت کی بنیاد کہا جاتا ہے وجودیت لا موجود سے شروع ہوکر فنا کا سفر کرتی ہے۔ علی ارشد میر اپنے فلسفے میں ایک ایسا انسان تخلیق کرتا نظر آتا ہے جو ماورائی طاقت کا حصہ بن کر کائنات پر چھا جانا چاہتا ہے۔ زُحل مریخ کو اپنے ”کلاوے“ میں بھر لینا چاہتا ہے۔ علی ارشد میر کے انسان کو دعا کی حاجت نہیں رہتی۔وہ خود صاحب کرامت ہے وہ خود ایک سوال ہے وہ خود ایک جواب ہے۔
اس کی نظم کا تخلیق کردہ انسان نیٹشے کے فوق البشر اور اقبال کے شاہین سے زیادہ صاحب اختیار و ارادہ ہے۔ صوفی کا تربیت یافتہ انسان کسی سائے میں رہ کر پروان چڑھتا ہے وہ ساری زندگی اس مخصوص دائرے سے باہر نہیں کل سکتا۔ اگر نیٹشے نے اپنی آزاد خیالی میں فوق البشر Super Humanکا فلسفہ دیا ہے تو وہ ایک بھٹکا ہوا ایسا انسان تخلیق کرجاتا ہے جو انسان کے غیر مہذب دور کی یادگار بن جاتا ہے وہ اتنا آزاد ہے کہ اس کے سامنے انسانی اخلاقیات کی کوئی قدر باقی نہیں رہ جاتی۔ جبکہ جدید دور میں اقبال کا تخلیق کردہ ”مرد مومن“ اپنے دشت جنوں میں یزداں کو اپنے حلقے میں لے لینے کا خواہش مند ہے تو دوسری جانب نان جویں کو ترستا ہوا اک غریب انسان، صوفی اگر انسان کو اپنی خودساختہ پابندیوں سے آزاد کردے اور فلسفہ ایک ترقی یافتہ اخلاقیات کا پابند ہوجائے تو علی ارشد میر کے تخلیق کردہ ایساانسان رونما ہوتا ہے جو خود ہی تمام پوری کائنات ہے: 

 کہو آپ کرامت آپ ہاں 
 ہتھ پیر سلامت آپ ہاں 
 کہو منت خود درگاہ بھی
 کہو روگ وی آپ اُپا بھی

 علی ارشدمیر کثیر الجہات نظریات کی حامل شخصیت ہے، وہ بیک وقت ایک صوفی ہے اور ایک فلاسفر بھی ہے۔ وہ ایک آزاد فکر و عمل کا انسان ہے وہ نہ تو کسی صوفی کا بیعت ہے نہ کسی فلاسفر کا پیروکار،اس کی سوچ کا سمندر اپنا رستہ خود بناتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایک وقت میں مولانا روم اور بلھے شاہ چل رہا ہوتا ہے تو دوسرے لمحے وہ علی عباس جلالپوری کے ساتھ شاہ حسین کے ساتھ محو سفر ہوتا ہے، کبھی وہ وارث شاہ کی”پتلی پیکنگ دی اُتے روم دے نقش“ بنا رہا ہوتا ہے تو کبھی وہ ”مارو بچے کے ساتھ لہور کی سڑکوں پر ایک جہاں کی خبر دوسرے جہاں میں سن رہا ہوتا ہے۔

کیہڑا شاہ اتے کیا عنایت
میں آپے سب آپے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارو بچیا! کیہڑے شہر ءِ چ آگئے آں 
جتھے لوہا چَٹدا تیل
پیر اْٹھ واء تے چڑھدے
جَھٹ کْو پہلاں گَھلی خبر سمندر لنگھ گئی
تاء تے آئے شہر ء ِچ
جَت سَت کیویں سلامت رکھیے
مارو بچیا!
قید بْراق طبیلیاں اندر
نہ کوئی رات وصل دی
دوویں نیت نماز لئیے
چْپ کرکے شْکر نَفل دی

 علی ارشد میر انسانی عظمت کا قائل ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں امن اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب وسائل کی تقسیم متوازن ہوجائے، وہ ایک وقت میں مارکسیت کا قائل ہے تو دوسری جانب وہ ابوذر غفاری کی مدح کرتا نظر آتا ہے، وہ ساری زندگی ان دونوں فلسفوں میں فرق تلاشنے کبھی ایراوتی کے کنارے بیٹھا ہے تو کبھی وہ مارو تھل کی خاک چھانتا سوال لئے کھڑا ہے:

نہ دغے متھے چندرما
نہ ساڈے پَیر پَدم
اَتے نہ چِیچی تے تارا
نہ جَمن تے پْشتک کْھلے
نہ کوئی اَلکھ جَگے
نہ سائیاں کوئی منتر پْھوک کے آکھیا واری
دھن گھڑی دھن رین میاں 
اَتے دھن پہرہ دھن دھنا
نہ پْن وڈیاں کْنکا کیتا
نہ کوئی چَھتر چڑھایا
اْلٹا تلک کیتا جگ رَت نال سارا
خود نوں چاک بنایا
نہ قسمت وِچ حج کوئی بنیا
نہ گنگا جَل دھاتے
نہ نر سونت نہ سانگ کھڈاری
سرسوتی دے چور اساں 
پر بن گئے ہور تے دے ہور اساں 
اَساں پَکھی جَھل دے
من کاچھڑ کَھنب گھاٹ نِربھ دی وا ء
گْھل پویئے تے جَگ وِچ دْھم جائے شور اساں 
پر بن گئے ہور تے دے ہور اساں۔۔۔۔

 علی ارشد میر اپنی اصل شناخت ڈھونڈھ رہا ہے شایدوہ اپنی ذات کی نہیں بلکہ اپنے تخلیق کردہ اُس انسان کی شناخت ڈھونڈھ رہا ہے۔جس کے سامنے کائنات کی ساری قوتیں اور کُل علوم سجدہ ریز ہوگئے تھے، جب وہ انسان مذہبی پیشوائیت کے چُنگل میں جکڑے غیر متوازن سرمادارانہ معاشرے میں جنم لیتا ہے تو اس کے ذہن میں صدیوں کے سفر کی تھکان اور کڑواہٹ ہے یہی ناانصافی معاشرے میں تلخی پیدا کرتی ہے جب چنبے کیرن والے، مہندی والے آرٹ تخلیق کرنے والے ہاتھوں کو گلیوں کی خاک بنادیا جائے، جب دریاؤں پار کی روح کو دو وقت کی روٹی کا محتاج کردیا جائے تو معاشرے کے اِن روشن دماغوں میں تلخی پیدا ہوتی ہے جو پورے معاشرے کو زہر آلود کرجاتی ہے۔

ساڈیاں مغزاں نوں،زہر پْرانے چڑھ گئے
ویڑھے چنبہ کیرن والے
ہتھ دْھپاں وِچ سڑ گئے
ساڈیاں مغزاں نوں،زہر پرانے چڑھ گئے

مرنوں بعد ترے لئی چڑیئے
اَکھ شیشے وِچ جڑگئے
ساڈیاں مغزاں نوں،زہر پرانے چڑھ گئے

مصنف کے بارے میں