مقبولیت سے زیادہ قبولیت پر توجہ

مقبولیت سے زیادہ قبولیت پر توجہ

سیاسی جماعتوں کا حالات کے مطابق بیانیہ بدلنا نئی بات نہیں مگر چھہتر برس کے تجربات کے بعد ہماری سیاسی جماعتیں اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ مقبولیت کے لیے در در کی خاک چھاننے سے بہتر ہے طاقتور حلقوں سے قبولیت کی سند حاصل کی جائے اِس کی وجہ مقبول قیادت کوپیش آنے والی مشکلات و مصائب ہیں اسی بنا پر سیاسی جماعتیں اب عوام سے زیادہ طاقتور حلقوں میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ کل کو اگر اقتدار ملتا ہے تو آرام و سکون سے اقتدار کا دورانیہ مکمل کر سکیں چھہتر سالہ ملکی سیاسی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مذکورہ بالا اخذ کردہ نتیجہ مبنی برحقیقت محسوس ہوتا ہے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو،نواز شریف اور عمران خان جیسی مقبولیت کم ہی سیاستدانوں کے حصے میں آئی لیکن ملک کے پہلے مقبول ترین سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تختہ دار پر جھول گئے جبکہ نواز شریف اور عمران خان ابھی حیات ضرور ہیں لیکن دونوں ہی مشکلات کے بھنورمیں پھنسے ہوئے ہیں اول الذکر کو دو مقدمات میں سزا ہوئی اور وہ نااہل ہونے کی وجہ سے فی الحال ا نتخابی عمل کا حصہ بننے سے قاصر ہیں کچھ عرصہ علاج کی غرض سے بیرونِ ملک رہے اب 21 اکتوبر کو وطن واپسی متوقع ہے جبکہ عمران خان کوبھی درجنوں مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے کئی ایک تونہایت سنگین ہیں سرِدست وہ بھی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں کیونکہ وہ بھی سزا یافتہ ہیں ملک کے دیگر سیاسی رہنماؤں میں سے کسی کو بھی مذکورہ بالا تین سیاسی رہنماؤں جیسی مقبولیت نہیں مل سکی البتہ یہ سبق سب کو ضرور مل گیا ہے کہ مقبولیت کے ٹمٹماتے چراغ کو اگر روشن رکھنا اور اقتدار میں آنا ہے تو عوامی مقبولیت سے زیادہ قبولیت حاصل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔

آج کل پی ٹی آئی جس عتاب سے گزررہی ہے پی پی اور ن لیگ کئی عشرے قبل ایسے امتحان کا سامنا کر چکی ہیں ن لیگ نے قبولیت پر توجہ دے کرہی نہ صرف سولہ ماہ کا اقتدار حاصل کیا بلکہ پی پی نے سندھ میں خراب ترین کارکردگی کے باوجود مزید سیاسی کامیابیاں حاصل کیں بلا شرکتِ غیرے نہ صرف صوبائی حکومت سے لطف اندوز ہوتی رہی بلکہ کراچی بلدیہ کی سربراہی حاصل کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوئی بلاول بھٹو اب تمام جماعتوں کو برابر کے مواقع دینے کی بات کرتے ہیں شاید انھیں کہیں سے بھنک پڑ چکی ہے کہ آئندہ اقتدار ن لیگ کوملنے والا ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ چھوڑ کر خود کو قبولیت کی سند کا اہل ثابت کرنے کے لیے آجکل خاندانِ شریف معاف کرنے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا بیانیہ اپنا چکا ہے فہمیدہ حلقے اسی بنا پر وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو نہ صرف مرکز اور پنجاب کا اقتدار آل شریف کے پاس ہو گا بلکہ نائب وزیرِ اعظم جیسا منصب بھی مریم نواز کے سپرد ہو سکتا ہے اِس حوالے سے فیصلہ ساز قوتوں سے گفت و شنید جاری ہے اور کسی فیصلہ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے ہی مزید بات چیت کے لیے وقت دینے کے لیے لندن سے سعودیہ اور عرب امارات کا قصد کیا گیا نئے بیانیے سے ن لیگ کو یقین ہے کہ نہ صرف اقتدار کا بڑا حصہ حاصل کرلے گی بلکہ قائد پر مقدمات اور سزاؤں کا بوجھ بھی ہٹ جائے گا۔

بندہ مستقبل کے تانے بانے بُنتا ہے لیکن آخر کار ہوتا وہی ہے جو کاتبِ تقدیر نے لکھا ہوتا ہے البتہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ آمدہ انتخابات میں کسی ایک جماعت کا اکثریت حاصل کرنا از حد مشکل ہے بلکہ ایک اور اتحادی حکومت کے آثار قوی تر ہیں اِس وقت قبولیت کی سند حاصل کرنے کے لیے ملک میں مقابلہ جاری ہے ن لیگ کے علاوہ پی پی بھی بھاگ دوڑ میں ہلکان ہے مولانا فضل الرحمٰن جیسا کائیاں سیاسی رہنما بھی متحرک ہے پی پی اور جے یو آئی ف ناراضی کا تاثر تو دیتی ہیں لیکن کوئی منانے نہ بھی آئے تو خود ہی مان بھی جاتی ہیں دراصل انھیں بھی ادراک ہے کہ ن لیگ قبولیت کی منزل کے بہت قریب ہے اس لیے ناراض رہنے سے اپنا ہی نقصان ہوگا جو دانشمندی نہیں اِس میں ابہام نہیں کہ ملک میں عمران خان کے پائے کامقبول ترین سیاستدان اور کوئی نہیں جس کی سروے رپورٹس بھی تصدیق کر چکی ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ شاید انتخابی نشان بلا رکھنے والے امیدوار آزادانہ انتخابی مُہم میں حصہ ہی نہ لے سکیں بلکہ عین ممکن ہے انتخابی مُہم میں حصہ لینے کے بجائے پی ٹی آئی کے امیدوار آگے بھاگ رہے ہوں اور پولیس گرفتاری کے لیے پیچھے لگی ہو حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جولوگ کبھی پی ٹی آئی کاحصہ یا عہدیدار بھی نہیں رہے وہ بھی احتیاطاً چھوڑنے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں کیا یہ حیران کُن نہیں کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے اعظم خان کو اِدارے بھی تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں لیکن وہی اعظم خان کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دیتے اور کمال مہارت سے مجسٹریٹ کی عدالت میں جاکر بیان بھی ر یکارڈ کرادیتے ہیں اسی طرح جسے تلاش کرنے میں سبھی ناکام رہے اسی عثمان ڈار کو ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے پورا ملک دیکھ لیتا ہے مزید حیرانگی کی بات یہ کہ ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کے مرکزی کردار جہانگیر ترین اور علیم خان استحکام پارٹی بنا کر منظورِ نظر بنے ہوئے ہیں فرخ حبیب کا منظرِ عام پر آتے ہی اِس پارٹی میں شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ جماعت چاہے عوامی مقبولیت سے کوسوں دور ہے لیکن قبولیت کی بہرحال سند حاصل کر چکی ہے۔

قبولیت کی سند سے تمام سیاسی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں یا نہیں ابھی اِس حوالے سے نوازشریف کے لیے صورتحال غیر یقینی ہے مثال کے طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے سے بظاہر ن لیگی خوش ہیں لیکن قانونی موشگافیوں کے ماہرین اِس فیصلے میں نواز شریف کے لیے فوائد دیکھنے سے قاصر ہیں پارلیمنٹ کی طرف سے نااہلی کی مدت پانچ برس کی قانون سازی کے باوجود اپیل کا حق ماضی سے نہ دینے کی بنا پر اِس فیصلے سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے خاتمے کا کوئی پہلو اکثر قانونی ماہرین کو نظر نہیں آتا مگر قبولیت کی سند کے تناظر میں قیاس کیا جارہا ہے کہ ایک بار پھر ملک میں 2011 کا منظر نامہ دیکھنے کو مل سکتا ہے اور مہنگائی کی ذمہ دار ہونے کے باوجود ن لیگ کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جا سکتی ہے کیونکہ سیاسی بیماریوں کے لیے تریاق کا آزمودہ نسخہ قبولیت کی سند ہے۔