گھوڑوں کی ریس

گھوڑوں کی ریس

آپ کو یاد ہوگا کہ بچپن میں چھت کے اوپر سے اکثر جہاز جب گزرتا تھا تو بچے سب آسمان کو منہ کر کے بائے بائے کہتے تھے یا پھر گزرتے جہاز کو اسلام علیکم کہتے تھے۔وہ تھا بچپن جس میں بنا مفاد کے یہ سب چلتا تھا،اب تو کوئی بنا مفاد کے سلام بھی نہیں لیتا اور یہی سچ ہے جسے ہم جانے انجانے اس بات کو نہ مانتے ہوئے منکر ہو جاتے ہیں۔اس بات کا مقصد ہے کہ ہم جس شعبے کی بات کر رہے یعنی سیاست، سیاست کی دُنیا جو جھوٹ اور منافقت، کے ستونوں پہ کھڑی ہوتی ہے اور لوگ اُس دُنیا میں وفا ڈھونڈنے نکلے ہیں اس بات پہ میں ہنسوں یا رئوں،ہمیں مان لینا چاہیے کہ اس دُنیا سے تعلق رکھنے والا ہر شخص صرف اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے آیا ہے۔
آج بات ہو رہی تھی کہ حکومتی جماعت آرٹیکل63Aاور آرٹیکل186کے تحت عدالت میں ریفرنس دائر کرے گی۔اب میں اس پوائنٹ پہ بات کرنے سے پہلے کچھ اہم پوائنٹس اپنے قارئین کے آگے رکھ کے اُن کو کچھ یاد دلانا چاہوں گی۔آج وزیر اعظم عمران خان نے بھی منحرف اراکین کو ضمیر فروش کا نام دے دیا اس پہ بھی میں روشنی ڈالنا چاہوں گی جیسے جیسے عدم اعتماد کے دن قریب آرہے ہیں سیاسی گہما گہمی اور ہارس ٹریڈنگ عروج پہ ہو رہی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے سندھ میں گورنر راج کا کہا کہ منحرف اراکین کی خرید و فروخت کے اوپر جو پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے وہ قوم کا پیسہ ہے اور قوم کا پیسہ قوم کی فلاح پہ خرچ ہونا چاہیے ۔یاد کیجئے کیونکہ ہماری قوم کی یاد داشت ذرا کمزور ہے جو کہ باتوں کو بہت جلد بھول جاتی ہے۔سینٹ الیکشن جب ہوا حکومتی جماعت بھول گئی کہ کیسے یوں ہی خرید و فروخت کا بازار گرم کرکے ہارس ٹریڈنگ سے ہی چیئرمین سینٹ میدان مارا تھا۔اُس وقت ہمارے وزیر داخلہ یا کسی اور وزیر مشیر کو خیال نہ آیا کہ قوم کا پیسہ ہم کدھر خرچ کر رہے ہیں۔ اب میں بات کروں گی ضمیر فروشوں کی جن کے خلاف آج پارٹی کا کارکنان نہ صرف اُن کے حلقوں میں احتجاج کر رہے ہیں بلکہ وزیر داخلہ نے بھی اُن کے لیے کہا کہ خاموشی سے واپس پارٹی کا رُخ کر لیں ہم اُن کو کلینر سے دھو لیں گے۔یہ سُن کر حیرت تو بالکل نہیں ہوئی ہاں ہنسی ضرور آئی کہ وزیر داخلہ نے آخر کس فارمولے سے کلینر بنایا ہے کہ جو صرف ان ہی کی جماعت کے پاس ہے جو ان کے ٹیبل پہ بیٹھ کے ان کا نعرہ لگاتا ہے وہ صاف ستھرا ہو جاتا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب لوگ نہ جانے کن کن جماعتوں سے اُٹھ کے آئے اور ان سب کو اُسی کلینر سے دھو کر پھر صاف کرکے ان سب کو وزارتوں کی کرسیوں پہ بیٹھا دیا گیا اور اُن سب کو بھلا دیا گیا جنہوں نے اس جماعت کے لیے خون پسینہ ایک کیا۔
عمران خان صاحب آج اس مشکل گھڑی میں کچھ رفقاء تو یاد آئے ہونگے جن کی وفائوں پہ چل کے آپ وزیر اعظم کی کرسی پہ بیٹھے ہیں۔ آج ضمیر فروشوں کے درمیان کیسا لگا جن کی بولیاں بھی مختلف لگیں کسی کی18کروڑ کسی کی20 کروڑ،کسی کی22کروڑ تو کسی کی25کروڑ۔ یہ بولیاں پہلی بار نہیں لگیں بلکہ ایسا ماحول دیکھتے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف آرہے ہیں۔میں ایک بار پھر اپنی وہی بات دہرائوں گی جو میں نے اپنے مختلف کالمز اور پروگرامز میں کہی کہ خان صاحب یہ لوگ تو پارٹی کے کبھی تھے ہی نہیں اور جب پارٹی پہ مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے یہی لوگ آپ کو چھوڑ کے بھاگیں گے۔جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے بھاگتے ہیں۔
اب یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے ۔یہ سب قوم کا ہی پیسہ ہے جن کو کسی نہ کسی طرح چُرا کر اپنے بینک بیلنس بھرتے آئے ہیں اور پھر اپنی کرسیاں بچانے کے لیے اپنے ہی مفاد پہ خرچ کرتے چلے آرہے ہیں۔جس طرح تبدیلی کے لیے غریب آدمی آپ کے ساتھ نکلا اور آپ اُنہی غریبوں کو پھر بھول گئے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے تاریخی الفاظ آج بھی مجھے یاد آتے ہیں۔ایک جلسے میں اُنہوں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے جوتے پھٹے ہوئے تھے تو اُس دن جلسے میں ہی ذالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اب میرے جلسے میں پھٹے جوتے پہنے لوگ شامل ہیں اب میری کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا۔اور سچ میں وہ کامیاب ہوئے۔ ایک بات مزید کہی تھی اُنہوں نے کہ جب تک میری پارٹی کا جھنڈا میرے ورکرز کے ہاتھوں میں رہے گا میری پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔اُن کی دونوں باتیں درست ہوئیں جب اس جماعت کے ورکرز نے جھنڈا چھوڑا تو اس جماعت نے اپنا تشخص کھو دیاٹھیک اُسی طرح جس طرح پی ٹی آئی میں ہوا۔یہ ضمیر فروش تو رکھے ہی اس کام کے لیے جاتے ہیں کہ وقت آنے پہ ان کی ادلا بدلی آسانی سے کی جا سکے یہ بات آپ کو بھی وزیر اعظم صاحب سمجھنی چاہیے تھی۔
اب حکومتی جماعت جو اہم آپشن استعمال کرے گی کہ وہ آرٹیکل 63A اور186کے تحت ریفرنس دائر کرنا ہے اب میں کچھ اپنے وزیر اعظم صاحب کو اُنہی کی بات یاد کرانا چاہوں گی جس کا میں نے ٹویٹ بھی کیا ہے کہ جب آپ نے پارلیمنٹ میں ووٹ آف کانفیڈنس مانگا کہ اگر میرے ایم پی ایز اور ایم این ایز میرے خلاف بھی ووٹ دیں گے میں اُن کی عزت کرونگا کیوں کہ ووٹ دینا اُن کا جمہوری حق ہے ۔پھر آج ان آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے آپ اُن سے جمہوری حق چھیننا چاہتے ہیںاب آپ ہر کسی کو آزادانہ حق دیں آپ کو بھی معلوم ہو سکے کہ کون آپ کے ساتھ ہے اور کون آپ کے خلاف ویسے تو اتنے دنوں میں بہت کچھ آپ پہ بھی واضح ہو چُکا ہو گا۔
وزیر اعظم صاحب میں آج اس کالم کی وساطت سے آپ کو اہم بات کہنا چاہوں گی کہ سیاست کی دنیا میں وفائیں صرف کرسی سے ہی نبھائی جاتی ہیں آج اگر آپ کسی کو اپنی کابینہ سے نکالتے ہیں کچھ ایسے جو نئے نئے  جنہوں نے وزارتیں لیں اور کچھ نئے نئے وزیر مملکت بنے آج اُن کو ہٹا دیجیے تو آپ کے حق میں دو لفظ نہیں بولیں گے۔ 
اس قومی خزانے کو تو سب سے زیادہ انہی گھوڑوں کی ریس نے ہی نقصان پہنچایا ہے اب اس قومی خزانے اور اس قوم پہ رحم کیجیے۔اور سب کو جمہوری حق استعمال کرنے دیجئے۔اس قوم کو اور اس ملک کو اگر ترقی یافتہ کی صف میںشامل کرنا ہے تو اس بندر بانٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے اور شفاف نظام ہی رکھا جائے مگر یہ سب کتابی باتیں لگتی ہیںتب تک رہیں گی جب تک تھالیاں بدلنے والے کرسیوں پہ رہیں گے۔

مصنف کے بارے میں