وطنِ عز یز اور یو کر ین کی جنگ

وطنِ عز یز اور یو کر ین کی جنگ

کرونا کی وبا اور مخصو ص سیا سی حا لا ت وطنِ عز یز میں معیشت کی خرابی کا سبب بن ہی رہے تھے۔ اور رہی سہی کسر  روس اور یو کر ین کے در میا ن جنگ نے پو ری کر دی ہے۔اب اگر یہ جنگ مزید طوالت اختیار کرتی ہے تو اس کے پاکستانی معیشت پر انتہائی گہرے اور منفی اثرات مرتب ہو ں گے۔ روسی برآمدات پر لگائی گئی پابندیوں اور یوکرائن سے رسد میں خلل کے باعث توانائی اور غذائی اجناس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ توانائی کی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہونے کے باعث پاکستان پر اس کے دیگر ممالک کی نسبت گہرے اثرات مرتب ہونے کے خدشات ہیں۔ گندم اور پام آئل پاکستان کی غذائی اجناس میں سب سے زیادہ حجم رکھتے ہیں، پاکستان روس اور یوکرائن دونوں ممالک کو گندم برآمد کرتا ہے۔ روس اور یوکرائن کی جنگ سے پاکستان پر تین طرح کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اقتصادی طور پر دیکھیں تو جنگ زدہ یوکرائن کے لیے پاکستانی برآمدات چونکہ بہت ہی کم ہیں۔ اس لیے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن روس اور یوکرائن دنیا میں گندم اور کئی دیگر زرعی اجناس پیدا کرنے والے اہم ممالک ہیں۔ پاکستان یوکرائن سے گندم درآمد کرتا ہے، اس لیے اس جنگ کے سبب پاکستانی درآمدات کسی حد تک متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر زرعی اجناس، تیل، کوئلے اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان اس کے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان مائع قدرتی گیس، کوئلہ اورتیل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد کی حد عبور کرچکی ہے۔ اب مہنگائی میں مزید اضافہ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سپلائی متاثر ہونے کے ڈر سے اشیا کا ذخیرہ کرنے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ گاڑیوں کے لیے چپس کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ چپس کے لیے خام مال (نیون اور پیلاڈیم) روس اور یوکرائن فراہم کرتے ہیں۔ یوکرائن سے اس بار پاکستان نے اپنی ضروریات کی 40 فیصد گندم درآمد کی ہے۔ یوکرائن میں کوئی بھی بحران پاکستان میں گندم کی قلت کو جنم دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں گندم، آٹے اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت کو چونکہ اس سے قبل سبسڈی دینے کی وجہ سے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا اسی لیے مزید سبسڈی دینا 
مشکل ہوگیا تھا۔ ادھر پٹرول کی قیمتیں بڑھتے ہی ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ مہنگائی کی شرح پر ضرور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان وہ عام آدمی ہے جس کے متعلق وزیراعظم عمران خان اپنے خطابات میں کئی مرتبہ ذکر کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سب سے زیادتعداد دیہاڑی دار افراد کی ہے اور سا ٹھ فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بے حد پریشان ہیں ایسے میں پٹرول کی نئی قیمتوں سے مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ کا امکان ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں قید کرنے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر قابو پانے کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کو دو وقت کی روٹی آسانی سے ملتی رہے۔گلوبل سپلائی چین متاثر ہونے سے پاکستانی برآمد کنندگان کی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور انہیں بحری مال بردار کی لاگت میں اضافے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ پاکستان میں روس کی مدد سے شروع کرد گیس پائپ لائن سمیت مختلف منصوبوں پر پیش رفت بھی متاثر ہو۔ پاکستان اپنے لیے خارجہ پالیسی امکانات کو بڑھانے اور اپنی برآمدات کو مختلف عالمی منڈیوں تک پھیلانے کے لیے جو تگ و دو کر رہا تھا، اس جنگ سے پاکستان کی وہ تگ و دو بھی متاثر ہوگی۔ اقتصادی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس کو مغرب میں پسند نہیں کیا گیا ہے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے اور پاکستان کوئی واضح پوزیشن نہیں لیتا تو پھر امریکہ اور یورپ کی طرف سے ایسا طرزِ عمل سامنے آسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف سے لے کر برآمدی رعایتوں تک ہمارے ملک کو کئی معاملات میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی یہ پوزیشن نہیں کہ وہ جنگ کی حمایت نہیں کرتا اور اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہتا، بلکہ تنازعات کو سفارتی سطح پر بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے، ایک لحاظ سے درست بات ہے۔ پاکستان سے یوکرائن چاول، سبزیاں اور فروٹ جاتے ہیں جبکہ پاکستان وہاں سے دفاعی سازوسامان اور گندم منگواتا ہے۔ اگر جنگ طویل ہوگئی تو پاکستان میں یوکرائن سے درآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل کی قلت اور مزید مہنگائی بھی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں یوکرائن سے سٹیل درآمد کیا جاتا ہے جو معیار کے اعتبار سے اچھا اور قیمت کے حساب سے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا پڑتا ہے، اس صورت حال میں اب سٹیل جو کہ تعمیراتی صنعت کا اہم جزو ہے اس کی درآمدگی بھی مفقود ہوگی اور دوسرے ممالک سے اس کی درآمدگی مہنگی ہوگی تو اس کا اثر بھی عام پاکستانی پر براہِ راست پڑے گا۔ اسی طرح پاکستان اور یورکائن کے درمیان کاٹن، ٹیکسٹائل آئٹمز، پلاسٹک، بیج، کھاد، ربڑ، گلاس، کارپٹ، مشینری، پتھر، چائے، کافی اور کاغذ سمیت دیگر اشیا درآمد کی جاتی ہیں، اب اگر یوکرائن کے بجائے کسی اور ملک سے ان اشیاء کا خام مال درآمد کیا جائے گا تو لامحالہ مہنگے داموں لینا پڑے گا تو ظاہر ہے کہ اس سے تیار سامان کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جس سے براہِ راست عام پاکستانی متاثر ہوگا۔ صورت حال اگر اسی طرح رہی تو پٹرول کی فی بیرل قیمت میں اضافہ مزید ہوتا جائے گا جس کا مطلب ہے پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں ممکنہ طور پر 100 روپے سے زائد تک کا اضافہ ہوگا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گندم کی درآمدگی بھی شدید متاثر ہوگی۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرائن چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرائن سے آیا تھا۔ پاکستان نے 2 سال میں یوکرائن سے 13 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جو پچھلے سال کی کل درآمدات کا 40 فیصد ہے۔ جنگ کی یہی صورت حال رہی تو گندم کی درآمد مکمل طور پر مفقود ہوجائے گی جس کے باعث دیگر ممالک سے مہنگی گندم درآمدگی مجبوری بن جائے گی اور اس مہنگائی کا براہِ راست متاثر عام پاکستانی ہوگا۔گو یاایک متوقع عالمی بحران ہمارے سامنے ہے، جس سے ہم بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے حکومتی سطح پر کسی قسم کی منصوبہ بندی اور پیشگی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کاشکار ہے۔ ایسے میں مہنگائی کو قابو کرنے پر حکومت اور اس کی مشینری کی کوئی توجہ نہیں، سب تحریک عدم اعتماد کا بہانہ تراش کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کیونکہ بیوروکریسی سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ ان سطور کے ذریعے حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ وہ حالات کی سنگینی کو سمجھیں، باہمی اختلاف کو پس پشت ڈال کر آنے والے بحران پر قابو پانے کے لیے دلجمعی سے کوشش کریں تو ملکی معیشت مہنگائی کے سونامی سے بچ سکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں