میرے والد کو میرے سامنے مارا گیا، داعش کی قید میں رہنے والی نوجوان لڑکی کی کہانی

میرے والد کو میرے سامنے مارا گیا، داعش کی قید میں رہنے والی نوجوان لڑکی کی کہانی

میونخ:عراق کی شدت پسند تنظیم داعش کے بارے آئے روز کوئی نہ کوئی مظالم سے بھری خبرضرور سننے میں آتی ہے۔ داعش اب تک ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کر چکی ہے۔بچے بوڑھے اور خواتین سب کو بے دردی سے قتل کرنے کی بہت سی ویڈیوز بھی منظرعام پرآچکی ہیں۔نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے ساتھ جنسی و اجتماعی زیادتی کے واقعات بھی میڈیا پر آچکے ہیں۔ کچھ خواتین ان کے  چنگل سے نکلنے میں کامیاب بھی رہیں۔ایسی ہی ایک نوجوان عراقی لڑکی جسے14سال کی عمر میں اغوا کیا گیا اور چھ ماہ تک اسکی عصمت دری کی جاتی رہی ہے۔

16سالہ اخلاص نے اپنے اوپر بیتے مظالم کی داستان غیرملکی صحافی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ میری عمر اس وقت14سال تھی جب عراق میں شدت پسند تنظیم داعش نے 2014ءمیں سنجار کے دیہات پر حملہ کرکے ہزاروں مردوں کو قتل اور ان کی خواتین کو جنسی غلام بنا لیا تھا، جن میں انتہائی کم عمر بچیوں سے لے کر ہر عمر کی عورتیں شامل تھیں۔

 اخلاص نے بتایا کہ جب داعش نے اس کے گاﺅں پر حملہ کیا۔ انہوں نے اخلاص کی آنکھوں کے سامنے اس کے والد کو قتل کر دیا اور اسے دیگر خواتین کے ساتھ غلام بنا کر لے گئے۔
میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق اخلاص نے بتایا  کہ ”میں نے اپنے والد کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ شدت پسندوں کے ہاتھوں پر ہمارے مقتولین کا خون لگا ہوا تھا جب وہ ہمیں گھسیٹتے ہوئے لیجا رہے تھے۔ پھر وہ ہمیں ایک جگہ لے گئے۔ وہاں میں 150اور خواتین کے ساتھ موجود تھی۔ شدت پسند آتے اور ان میں سے لڑکیوں کو پسند کرکے ساتھ لے جاتے۔ ایک روز ایک ادھیڑ عمر شدت پسند آیا اور اس نے ایک 10سالہ بچی کو پسند کیا۔ وہ جب بچی کو گھسیٹ کر لیجا رہا تھا تو وہ خوف سے چیخ رہی تھی۔ میں زندگی بھر اس کی چیخیں نہیں بھول پاﺅں گی۔“

اگلے روز ایک 40سالہ شدت پسند آیا اور اس نے مجھے پسند کیا اور ساتھ لے گیا۔

اس کی شکل انتہائی بھیانک تھی، کسی درندے جیسی۔ میں 6مہینے تک اس کی قید میں رہی اور ان 6ماہ میں وہ روزانہ مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا۔ پھر ایک روز جب وہ لڑائی کے لیے گیا ہوا تھا، مجھے وہاں سے فرار ہونے کا موقع مل گیا اور میں خوش قسمتی سے ایک پناہ گزین کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔“ رپورٹ کے مطابق پناہ گزین کیمپ میں اخلاص کی ملاقات ایک امریکی خاتون وکیل جیکولین ایساک سے ہوئی۔ جیکولین نے اسے جرمنی پہنچانے کا انتظام کیا جہاں اس وقت اس کا نفسیاتی علاج جاری ہے.

مصنف کے بارے میں