عمران کہانی انجام کو بڑھ رہی ہے

عمران کہانی انجام کو بڑھ رہی ہے

میں چشم تصورِ سے بھی اسلامی معاشرے کے خالق”بعد از خدا بزرگ توہی قصہ مختصر“ کو دیکھنے کی جسارت کرتا ہوں تو میری بصارت و بصیرت چندھیا جاتی ہے۔ایسا معاشرہ جس کے بطن سے اسلامی ریاست نے جنم لیا اوراُس کے متوالے مشرق و مغرب کے رب کی توحیدکا پیغام لے کر صفت ِجام دشت و صحرا میں پھرتے رہے۔ جن کے سامنے ہمالہ کے پہاڑ ٹھہرے اور نہ ہی کوئی گہرے سے گہرا سمندراُن کے گھوڑوں کے ٹخنوں سے اوپر آ سکا۔چشم فلک نے اُنؐ سے پہلے بھلا معراج ِانسانیت پر فائزایسی جلیل القدر ہستی کو کہاں دیکھا تھا؟جنؐ کی زندگی کو قرآن نے اسوۂ حسنہ کہہ کر قیامت کی صبح تک رول ماڈل بنا دیا جو جدید اور قدیم دنیا میں انسانوں کی یکساں رہنمائی کیلئے ہمیشہ مینارہ نور ثابت ہوئی۔ آپؐ کی ذات مبارکہ کو قرآنِ ناطق کہا گیا اور آپؐ کے کردار کے سب سے معتبر شہادتی خود اللہ رب العزت ہیں۔ جن کی تخلیق اُس وقت مکمل ہوچکی تھی جب آدم ابھی ہوا اورمٹی کے درمیان تھے۔جنؐ کا امتی ہونے کی خواہش انبیاء نے کی۔جنہوں ؐ نے بدترین دشمنوں کومعاف کرکے انسانی تاریخ میں رواداری کے اعلیٰ ترین معیارات مکمل کیے۔ جنہوں ؐنے اپنے زمانے کی سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو خطوط لکھ کر اللہ کے دین کی طرف دعوت دی۔ جنؐ کے بدترین دشمن بھی انہیں ؐ احسان کرنے والا جانتے تھے۔ جنہوں ؐنے دورِ جاہلیت میں خون کا بدلہ خون کی روایت کو ختم کرنے کی سعی فرماتے ہوئے اپنے چچا زاد بھائی ابنِ ربیعہ کے قاتلوں کو معاف فرمایا جنہوں ؐنے اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والوں کو نہ صرف معاف فرمایا بلکہ اُس کے گھر کو امان کاگھر قرار دیا۔ جنہوں ؐ نے عمر بھر جو آیا خدا کی راہ میں بانٹ دیا۔ جوؐ مہمان نواز ی اور احسان کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ جن ؐکی ہر ادا کو اللہ رب العزت نے رہتی دنیا تک محفوظ فرما دیا۔ اب کوئی کیا اُنؐ کی طرز زندگی کو بنے بنائے مسلم معاشرہ پر لاگو کرنے کا علم اٹھائے گا۔ ریاست مدینہ محمد ؐ کے اسلامی انقلاب کی دین تھی جس کے پیچھے کائنات کا سب سے افضل و اعلیٰ، مقدس و ارفع پیغام الٰہی کارفرما تھا۔
مجھے نہیں یاد کہ میں نے زندگی میں ایک دن بھی عمران نیازی کی ریاست ِ مدینہ کی حمایت کی ہو کیونکہ میں رسول ؐ اللہ کی زندگی کا ادنیٰ سا قاری ہونے کے ناتے ایسے سوچنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتاچہ جائیکہ کسی ایسے شخص سے یہ امید باندھ لوں جو اعلانیہ اپنے آپ کو ”پلے بوائے“ کہنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ البتہ جن حالا ت میں تحریک انصاف میں کام کرتے رہے و ہ دراصل پاکستان کے سیاسی قائدین سے مایوسی تھی اورہے جس میں اب عمران نیازی بھی شامل ہو چکاہے۔ ہم نے اس سماج کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی ہے اب اگر اس میں ناکام ہوئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی کامیابیاں حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان کسی بڑی جدوجہد میں ناکام ہو جائے کیونکہ انسانی تاریخ یا تو بڑی کامیابیوں کو جگہ دیتی ہے یا بڑی ناکامیوں کو اس میں چھوٹی کامیابیوں اور چھوٹی ناکامیوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اورمیں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک بڑی کوشش کرتے ہوئے صرف نالائق قیادت کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں۔ عمران نیازی کب جانتا تھا کہ وہ گھڑی نہیں ”وقت“بیچ رہاتھا۔ مجھے توشہ خانہ سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن جس لیول پر جا کر عمران نیاز ی کی ہیرو شپ بنائی گئی تھی وہ اُس معیار پر ایکٹنگ کرنے میں بھی بُری طرح ناکام ہوا ہے۔صادق و امین رسالت مآب ﷺ کے وہ دو معجزے ہیں جوآپؐ کو اعلان نبوت سے پہلے عطا ہوئے سو اُس معیار کے نزدیک ہونے کا دعویٰ تو جناب ِ علیؓ کا نہیں تو پھر کسی ایر ے غیرے کی کیا اوقات رہ جاتی ہے۔ موجودہ عمران نیازی بنانے والے یہ بھول گئے تھے کہ بہرحال عمران نیازی ایک عام انسان ہے وہ سیاست کرسکتا ہے۔ سیٹیں بھی جیت سکتا ہے اور وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے لیکن اُس معیار کی جعلی ایکٹنگ بھی اُس کے بس میں نہیں ہے۔یہ جرأت تو ”دی میسج“ بنانے والوں نے نہیں کی کہ وہ رسالت مآبؐ کی کوئی جھلک 
بھی دکھا دیتے اور عمران خان کے بانی اتنے بدبخت اور گستاخ تھے کہ انہوں نے نیم زندہ انسا ن لا کر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے سیاسی میدان میں چھوڑ دیا جو حلف اٹھاتے وقت خاتم النبیین کا تلفظ بھی درست ادا کرنے سے عاری تھا۔ جو برملا پاکستانی معاشرے کی ہواؤں اور فضاؤں کومزید طالبانی کرتا رہا۔ جس وقت عمران نیازی طالبان سے مذاکرات کی باتیں کرتے ہوئے افواج پاکستان کی شکست کا تصور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں بٹھا رہا تھا اُس وقت یہی اسٹیبلشمنٹ اُسے سب کچھ کرنے اورکہنے کی اجازت دے رہی تھی۔ آج وہ آپ سے اجازت لیے بغیر بلکہ آپ کے روکے نہیں رُک رہا یہی حسن نثار تھا جو میری آنکھوں کے سامنے ارسطو کی طرح ا پنے سکندراعظم کی تربیت کرنے آتاتھا اور آج جو غصہ آپ کو عمران نیازی میں دکھائی دے رہا ہے یہ دھرنے سے تھوڑا پہلے شروع ہوا تھا ورنہ آپ اس سے پہلے کی تقاریر نکال کردیکھ لیں مسٹر نیازی کی تقریر میں اتنی بدزبانی نہیں ہوا کرتی تھی۔ حسن نثار تو باقاعدہ”کرومو“ لگے چھوٹے سے سٹوڈیو میں سامنے بیٹھ کر الفاظ پر زور دینا ٗ نرم الفاظ کہنا اور سوالیہ گفتگو کرنا سب کچھ سکھا رہا تھا۔ حسن نثار آج بھی عمران نیازی کا تحفظ صرف اس لئے کرتا ہے کہ اس پودے کو دوسرے پودوں کی قلمکاری کرکے منتشر شخصیت بنانے میں اُس کا مرکزی کردار ہے۔ 
پاکستان تحریک انصاف بنی تو عمران نیازی کے گرد صحافیوں کا ایک عظیم الشان اجتماع تھا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مجیب الرحمان شامی ٗحسن نثار اور ایسے لا تعداد صحافی تحریک انصاف کے بانی رکن تھے لیکن 1997ء کے انتخابات کی عبرت ناک شکست میں صحافی تو صحافی ٗ میاں محمود الرشید جیسے سیاسی ورکر بھی عمران نیازی کو ”مردہ گھوڑا“ کہہ کر چھوڑگئے تھے لیکن پھر 2008ء میں اُن کی بھی واپسی ہوئی اورانہیں لاہورکا صدر بنایا گیا اور اِس عہدہ پر چار سال براجمان رہنے اور لاہور کی تنظیم بلکہ یونین کونسل تک جماعت اسلامی کے سابقون اور نکالے ہوئے اراکین کو تنظیم میں ”رائٹ آف ووٹ“ دینے کے باوجود 2013ء کا انٹرا پارٹی الیکشن عبد العلیم خان سے بری طرح ہار گئے لیکن الیکشن ہارنے کے باوجود وہ  2013ء کے انتخابات سے پہلے پارلیمانی بورڈ کے ممبر بنا دیئے گئے جنہوں نے پارٹی ٹکٹس تقسیم کرنا تھیں اورپھر ٹکٹوں کی ایسی لوٹ سیل لگی کہ الامان! الامان!یار لوگ بنی گالہ کے دروازے تک پہنچ گئے لیکن جسے بیٹھا ساتھی نظر نہ آئے اُسے کھڑا بھی نظر نہیں آتا۔ عمران نیازی کے بانی اراکین بُری طرح نظر انداز ہوئے اور عمران نیازی کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ٹکٹیں تقسیم کرنے میں زیادتی ہوئی ہے۔ 2015ء کے  ضمنی انتخابات میں عبد العلیم خان کا مقابلہ ن لیگ کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے تھا۔وہ الیکشن ہارنے کی واحد وجہ میاں اسلم اقبال تھا جس کے بارے میں ٗ میں نے چیئرمین تحریک انصاف کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا لیکن عمران خان شاید خود یہی چاہتا تھا کہ پارٹی مقبول ضرور ہو لیکن عبدالعلیم خان کو نہیں جیتنا چاہیے اورپھر ایسا ہی ہوا۔میاں اسلم اقبال کے صوبائی حلقہ سے ہم میاں اسلم اقبال کی یونین کونسل ٗ وارڈ یہاں تک کہ وہ گلی بھی ہار گئے جہاں میاں اسلم اقبال کی رہائش تھی۔ تما م کرداراپنا اپنا رول انتہائی جانفشانی سے نبھا رہے تھے لیکن عبد العلیم خان یہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش رہا۔
”جیل بھرو تحریک“اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کوئی دائمی بواسیر کا مریض نکلا ہے تو کوئی شاہ محمود قریشی سے ملنے آیا ہوا تھا کہ پکڑا گیا۔ زبیر نیازی ابھی تک پیچھے دیکھے بغیر بھاگتا جا رہا ہے حالانکہ اب اُس کے پیچھے کوئی نہیں بھاگ رہا۔ کسی کی بیوی عدالت سے رجوع کر رہی ہے اورکسی کا کہنا ہے کہ اُنہیں علامتی گرفتاری کا کہہ کر حقیقی گرفتار کرا دیا گیا ہے۔ مجھے تو وہ دُلا بھٹی نظر نہیں آ رہا جو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوکرعام پاکستانیوں سے باہر نکلنے کا حلف لیا کرتاتھااُس کی کوئی خیر خبر نہیں آئی۔ یہ لاہور کے سارے ٹکٹ ہولڈرز ٗ تنظیمی عہدہ دار ٗ سٹیک ہولڈرز اور عمران لورز کلب کے ممبران کہاں ہیں؟جنہوں نے ساڑھے تین سال اقتدار کے ”بُلھے“ لوٹے ہیں وہ ہیں کدھر؟ کہانی اپنے انجام پر پہنچنے کو ہے عمران نیازی ہیں کہ اپنی بھاگی ہوئی سپاہ پر اکتفا کر رہا ہے کہ وہ لوٹ آئے گی لیکن ایسا کبھی ہوا ہے۔