منطقی انجام

منطقی انجام

یہ تو ہونا تھا، بندوق کی لبلبی پر ایمپائر کی انگلی کے زور پر سیاست کرنے والوں کی سیاسی موت بھی گولی سے ہوتی ہے چاہے وہ جان لیوا ثابت نہ بھی ہو۔ عمران خان کے لانگ مارچ کے ٹانگ مارچ ہونے کے پیچھے جو بھی سازش تھی اسکا آغاز عدم اعتماد کی تحریک سے نہیں بلکہ 2014 کے دھرنے سے ہوا تھا۔ جنرل راحیل شریف اور اسوقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کی مدد سے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ آور ہوکر حکومت گرانے کی سازش کرنے والے عمران خان آج کس منہ سے اپنے اْس ڈنڈا پیر راحیل شریف کے گدّی نشینوں پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔انہیں گدّی نشینوں کے گودی نشین وزیر اعظم عمران خان پہلے تو سیاسی اور عدالتی انجینئرنگ کے نتیجے میں ملنے والے 2018 کے اقتدار کے مزے لیتے رہے اور جب پیر نے الٹا تعویز لکھنا شروع کر دیا تو ایک دم پیری فقیری کے نظریے کے باغی ہو گئے، بولے عمل وہ جو ان کے حق میں ہو اور تعویز وہ جو اقتدار کے محبوب کو ان کے قدموں میں لا پھینکے۔ مگر پھر پرانے پیر چیلوں کو اپنے ہی علاقے میں آستانہ آباد کرنے کی اجازت کہاں دیتے ہیں۔ بلی کو شیر کی خالہ اسی لئے تو کہا جاتا ہے۔
یوں تو پاکستان کے تقریباً ہر سیاستدان نے پیرنی اسٹیبلشمنٹ کے چیلے کے طور اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا ہے مگر جو شخصیاتی کرشمہ عمران خان کے پاس تھا وہ کسی کے نصیب میں نہیں آیا، یہ کرشمہ ووٹنگ سے پہلے ہونے والی سیاسی انجینئرنگ کے ننگے جسم پر عمومی عوامی مقبولیت کی چادر ڈالنے کے کام آیا۔آج عمران خان اور ان کے رفقا کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ غلط سہی مگر ایک مکافاتِ عمل بھی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک شخص بطور وزیر اعظم جن جن اصولوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کرتا رہا آج وہ شخص آنسو بہاتے ایسے معصوم بن رہا ہے جیسے اس سے بڑا مظلوم کوئی ہے ہی نہیں۔ اس کی باتوں سے لگتا ہے کہ اسے آج تک اقتدار ملا ہی نہیں اور وہ ایک سیاسی کنوارہ ہے، مگر اس شخص کی مظلومیت اور معصومیت کے پیچھے دس بچوں کا باپ اور تین بیویوں کا وہ شوہر ہے جو اپنی چوتھی شادی پر بھی رومال ناک سے لگا کر شرما رہا ہو اور پہلی تین شادیوں کا اعتراف کرنے سے بھی انکاری ہو۔
عمران خان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم اپنی بے اختیاری اور بے بسی کے واقعات کا آہستہ آہستہ اعتراف کر رہے ہیں اور یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے کنٹرول میں کچھ نہیں تھا۔“میں بے بس تھی اور وہ بے غیرت تھا”کے مصداق اپنی وضاحتوں کے باوجود وہ مسلسل اپنے نامزد مجرموں کے تعاون کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ پرانی عادتیں آسانی سے نہیں چھوٹتی تھیں اور ناجائز اقتدار کے نشے کی لت کچھ سیاستدانوں کو سیاسی اقدار کا سودا کرنے پر بار بار مجبور کرتی رہتی ہے۔
اپنی لانگ مارچ کے اختتامی جلسے میں خان صاحب پہلے کی طرح نئی عسکری قیادت سے براہ راست مخاطب تو نہیں ہوئے اور نہ ہی ان سے الیکشن کی تاریخ مانگی مگر اس کے باوجود وہ ان کے فیصلوں کی طاقت کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکے، بولے ہم طاقت ور اور فیصلہ سازی کی قوت رکھنے والے اداروں پر جلد الیکشن کی تاریخ کے لئے دباؤ ڈالتے رہیں گے۔ یہی وہ منافقت اور فکری بد دیانتی ہے جو خان صاحب کی عوامی مقبولیت کی سفید چادر پر ایک مستقل بدنما داغ بنتی جا رہی ہے۔ ملک کا دانشور طبقہ بجا طور ان کی اس سیاسی حکمت عملی پر سوال اٹھاتا ہے جسکے تحت خان صاحب عوام سے ووٹ اور بوٹ سے اقتدار مانگتے ہیں۔
اسی سیاسی منافقت اور مصلحت کے باعث عمران خان جمہوریت اور پارلیمنٹ میں عوام کا اعتماد بڑھانے کے بجائے لوگوں کو سیاست۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے متنفر کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی سیاست ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے جس باعث ان کے حمایتی تحریک انصاف اور اسکے نظریے کی بجائے عمران خان کی ذات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔مختصر یہ کہ عمران خان نے اپنے سیاسی ڈنڈا پیر کی بیعت کرنے کے بعد اسی پیر کے گھر میں نقب لگانے کی کوشش نہ کی ہوتی تو شاید وہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہوتے۔ ایک ڈنڈے پیر اور اسکے ایک چیلے کے بیچ اس جھگڑے نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور قوم کے سامنے یہ دونوں خود کو روحانی پیشوا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں نام نہاد اس حقیقی آزادی کے قیدی عوام کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ دونوں میں سے کس کا ساتھ دیا جائے، اسٹیبلشمنٹ کے لاپرواہ ڈنڈا پیر کو اپنی ساکھ کے حوالے سے کبھی فکر تھی ہی نہیں کیونکہ خراب عوامی ساکھ سے اسکے اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اسی لئے وہ برملا اقرار جرم کرتا ہے کہ فروری 2012 کے بعد سے وہ غیر سیاسی ہو گیا ہے، اس سے پہلے کیا ہوا یہ پوچھنے والے غدار ہونگے۔ دوسری طرف اسی ڈنڈا پیر کا ناراض چیلہ اپنے شریک جرم ہونے کا اعتراف کرنے کی بجائے کہتا ہے کہ میں بے بس تھا اور یہ نہیں بتاتا کہ 2018 میں وہ اقتدار کی سیج تک پیر کی بانہوں میں جھولتا جھولتا کیوں آیا تھا۔ ڈنڈا پیر کیے حجرے سے نکالے جانے کے بعد یہ چیلا اب عوامی ساکھ کا محتاج اور اسی لئے اپنی شراکتِ جرم کے برملا اعتراف سے گریزاں ہے۔
عسکری قیادت میں تبدیلی کے بعد اب خان صاحب کو اپنے عسکری سعادت والی سوچ سے بھی پیچھا چھڑانا ہو گا۔ جنرل باجوہ اور ان کے چند ساتھی جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ نے خان صاحب کی سیاسی امنگوں پر بظاہر پانی پھیر دیا ہے، ڈنڈا پیر کے گدی نشین کے دربار سے الٹے پاؤں نکلتے خان صاحب کو غیرسیاسی دم درود کی بجائے اب سیاست کے کوالیفائیڈ ڈاکٹروں یعنی سیاستدانوں سے ہی رجوع کرنا پڑیگا جن کے ٹیکوں سے اقتدار کی حوریں نہیں عوام کے حقیقی مسائل نظر آتے ہیں۔
خان صاحب جو اب کرنے جا رہے ہیں انہیں بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا، پیر کی خیرات کا انتظار کرنے کی بجائے حلال کی مزدوری یعنی عوامی سیاست۔ صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل بہت پہلے کیا جا سکتا تھا۔ اب پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اگر فوری الیکشن کرائیں گے تو ایسا تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ وفاقی حکومت برقرار ہو اور پورے صوبے میں الیکشن ہو جائے، اگر ن لیگ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے تواسمبلیاں کیسے تحلیل ہوسکتی ہیں جب تک اس تحریک پر ووٹنگ نہیں ہوجاتی، لگتا ہے کہ عمران خان آئندہ سال بجٹ کے بعد اگست ستمبر میں الیکشن پر راضی ہو جائیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ اب کی بار وہ اپنی چھبیس سالہ جدو جہد میں پہلی مرتبہ مائنس اسٹیبلشمنٹ سیاست کرینگے جو ان کو دو تہائی اکثریت تو نہیں مگر سادہ اکثریت ضرور دے سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کا اصل امتحان تب ہو گا جب وہ اپنے انتخابی منشور میں وہ سب باتیں شامل کریگی جن کا رونا وہ اقتدار سے نکلنے کے بعد رو رہی ہے۔ کیا عمران خان ایسا کرنے کی ہمت کرینگے؟ یا ایک بار پھر وہ اقتدار کے سیج پر اپنی زخمی ٹانگ اوپر رکھنے کی جلدی میں کسی پیر کے ہاتھوں کی لکیروں کو پڑے بغیر اس پر بیعت کر لیں گے؟