سینیٹ انتخابات: ن لیگ 15 اور پیپلز پارٹی 12 نشستوں پر کامیاب

سینیٹ انتخابات: ن لیگ 15 اور پیپلز پارٹی 12 نشستوں پر کامیاب

اسلام آباد: سینیٹ انتخابات میں پنجاب اور وفاق میں ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں نے میدان مار لیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا پلڑا بھاری رہا، جبکہ اندرونی اختلافات ایم کیو ایم کو بھاری پڑ گئے۔ تحریک انصاف نے 6 نشستیں حاصل کیں۔

سینیٹ انتخابات میں متحدہ پاکستان کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں ن لیگ کو بھی بڑا جھٹکا لگا، کلین سویپ کا خواب پورا نہ ہوسکا، پی ٹی آئی کے امیدوار 44 ووٹ حاصل کرکے سیٹ لے اڑے۔ ادھر خیبر پختونخوا میں مفاہمت کے بادشاہ کا جادو چل گیا، صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے صرف چھ ارکان ہے، لیکن پیپلز پارٹی نے صوبے سے دو سیٹیں جیت لیں۔ سندھ سے رضا ربانی بال بال بچ گئے، آٹھویں بار گنتی میں کامیابی مل گئی۔

سینیٹ کی 33 جنرل، علماء/ ٹیکنوکریٹس کی 9 ، خواتین کی 8 اور اقلیت کی 2 نشستوں کے لیے 131 امیدوار میدان میں تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 15 امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ 12 آزاد، پاکستان پیپلز پارٹی کے 12، پاکستان تحریک انصاف کے 6، جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل پارٹی کے 2، 2 جبکہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کا 1، 1 امیدوار کامیاب ہوا۔

پنجاب کی 12 نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) نے 11 جبکہ پی ٹی آئی نے 1 نشست حاصل کی۔ سندھ کی 12 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 اور مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم پاکستان نے 1،1 نشست حاصل کی۔ کے پی کے کی 11 نشستون میں سے پاکستان تحریک انصاف کے 5، ن لیگ کے حمایت یافتہ 2 ، پیپلز پارٹی 2 اور جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے 1،1 امیدوار کامیاب ہوئے۔ بلوچستان کی 11 نشستوں میں سے 8 آزاد، نیشنل پارٹی کے 2 اور جمعیت علمائے اسلام کا 1 امیدوار کامیاب ہوا۔ اسلام آباد کی سینیٹ کی 2 نشستیں ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں اور فاٹا کی 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے نام رہیں۔

سینیٹ کی 33 جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں بلوچستان سے احمد خان (آزاد)، انوار الحق کاکڑ (آزاد)، کاؤدا بابر (آزاد)، محمد صادق سنجرانی (آزاد)، سردار شفیق ترین (آزاد)، مولوی فیض محمد (جے یو آئی ف) اور محمد اکرم (نیشنل پارٹی) سینیٹر منتخب ہوئے۔

جنرل نشست پر فاٹا سے ہدایت اللہ (آزاد)، ہلال الرحمان (آزاد)، مرزا محمد آفریدی (آزاد)، شمیم آفریدی (آزاد) سینیٹر منتخب ہوئے۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ محمد اسد علی خان جونیجو جنرل نشست پر منتخب ہوئے۔

خیبر پختونخوا میں جنرل نشست پر مشتاق احمد (جماعت اسلامی)، محمد طلحہ محمود (جے یو آئی ف)، سید محمد صابر شاہ (ن لیگ کے حمایت یافتہ)، فیصل جاوید (تحریک انصاف)، بہرہ مند (پیپلز پارٹی)، فدا محمد (تحریک انصاف)، محمد ایوب (تحریک انصاف) سینیٹر منتخب ہوئے۔

پنجاب اسمبلی سے جنرل نشست پر ن لیگ کے حمایت یافتہ آصف سعید کرمانی، ہارون اختر خان، مصدق مسعود ملک، رانا مقبول احمد، شاہین خالد بٹ، زبیر گل سینیٹر منتخب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے چوہدری محمد سرور بھی جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔

سندھ اسمبلی سے جنرل نشست پر محمد فروغ نسیم (ایم کیو ایم پاکستان)، سید مظفر حسین شاہ (مسلم لیگ فنکشنل) جبکہ پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی، انعام الدین شوقین، مولا بخش چانڈیو، مصطفیٰ نواز کھوکر اور سید محمد علی شاہ جاموٹ سینیٹر منتخب ہوئے۔

ٹیکنوکریٹس کی نشست پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں مشاہد حسین سید (ن لیگ کے حمایت یافتہ، اسلام آباد)، دلاور خان (ن لیگ کے حمایت یافتہ، خیبر پختونخوا)، محمد اعظم خان سواتی (تحریک انصاف، خیبر پختونخوا)، حافظ عبدالکریم (ن لیگ کے حمایت یافتہ، پنجاب)، اسحاق ڈار (ن لیگ کے حمایت یافتہ، پنجاب) رخسانہ زبیری (پیپلز پارٹی، سندھ)، سنکدر علی مندھڑو (پیپلز پارٹی، سندھ)، نصیب اللہ بازائی (آزاد، بلوچستان)، محمد طاہر بزنجو (نیشنل پارٹی، بلوچستان) شامل ہیں۔

سینیٹ میں خواتین کی نشست پر کامیاب ہونے والی امیدواروں میں ثناء جمالی (آزاد، بلوچستان)، عابدہ محمد عظیم (آزاد، بلوچستان)، روبینہ خالد (پیپلز پارٹی، خیبر پختونخوا)، مہر تاج روگھانی (تحریک انصاف، خیبر پختونخوا)، نزہت صادق (ن لیگ کی حمایت یافتہ، پنجاب)، سعدیہ خاقان عباسی (ن لیگ کی حمایت یافتہ، پنجاب)، کیشو بائی (پیپلز پارٹی، سندھ)، قرۃ العین مری (پیپلز پارٹی، سندھ) شامل ہیں۔

سینیٹ میں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں پر پنجاب سے ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کامران مائیکل جبکہ سندھ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار انور لعل دین سینیٹر منتخب ہوئے۔