ضمنی الیکشن کی بہتی گنگا

ضمنی الیکشن کی بہتی گنگا

گاؤں کے چوہدری صاحب نے ساتھ والے گاؤں کے ایک ٹھیکیدار کو بھاری قرض دے رکھا تھا۔ اسی دوران ٹھیکیدار کا برا وقت شروع ہو گیا۔ وہ جیل گیا تو چوہدری صاحب نے اپنی جیب سے خرچہ کر کے اس کی ضمانت کرائی کچھ عرصہ بعد وہ بیمار ہو کر ہسپتال داخل ہوا تو چوہدری صاحب کو اس کی زندگی کی فکر لگ گئی۔ اس کے علاج پر پھر چوہدری صاحب نے بھاری اخراجات کر کے اس کی جان بچائی۔ مختصر یہ کہ ٹھیکیدار کو جب بھی کچھ ہونے لگتا چوہدری صاحب کی جان پر بن جاتی انہیں اپنی ساری رقمیں ڈوبتی نظر آتیں۔ یہ تمثیل ہماری حالیہ سیاست پر صادق آتی ہے خصوصاً پنجاب کے ضمنی انتخابات کی بات ہو رہی ہے جس میں عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں اور مقابلہ اتنا سخت ہے کہ تحریک انصاف کو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر پرویز الٰہی کو سپورٹ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اگر عمران خان کی جماعت ضمنی الیکشن میں پرویز الٰہی کے لیے مطلوبہ سیٹیں نہ جیت سکی تو پھر پنجاب ایک بار پھر حمزہ شہباز کی جھولی میں گر جائے گا اور اگلے الیکشن کے سارے Electables طاقت کے مرکز یعنی حکمران جماعت ن لیگ کے گرد منڈلاتے نظر آئیں گے۔ 
عمران خان کی چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ غیر مشروط محبت کو دیکھتے ہوئے پرویز الٰہی نے بھی وفاداری کا ثبوت دیا ہے خبریں ہیں کہ وہ عمران خان اور حقیقی طاقتوں کے درمیان آخری کوشش کے طور پر صلح کی کوشش کر رہے ہیں اس سلسلے میں خبریں آ رہی ہیں کہ اعجاز الحق نے ثالثی کرانے کی کوشش کی جس میں اور دوست بھی شامل تھے اس سلسلے میں عمران خان کو اعتماد میں لیا گیا تھا مگر یہ تجویز کامیاب نہیں ہو سکی جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے عوامی جلسوں میں مقتدر حلقوں کے خلاف شروع میں براہ راست اور بعد میں بالواسطہ طور پر تنقیدی جملے جاری رکھے جس سے برف نہیں پگھل سکی ویسے بھی اس وقت ن لیگ نے پرویز الٰہی سے پہلے pre Emptive Action کر کے عمران خان اور پرویز الٰہی کے لیے فی الحال وہ دروازہ بند کر دیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کی بیک چینل ڈپلومیسی کو Beat کرنا کسی بھی سیاسی قوت کے لیے ممکن نہیں ہے جس کا عملی مظاہرہ عوام دو دفعہ دیکھ چکے ہیں کہ وہ جیل کے اندر سے کس طرح نہ صرف باہر آتے ہیں بلکہ سیدھے بیرون ملک پرواز کرتے ہیں یہ تو موٹی سی مثال ہے سیاست میں ان کی specialization ہی یہ ہے کہ ان کے اندرونی اور بیرونی کنکشن ایک حیرت کدہ ہیں۔ 
پنجاب کا ضمنی انتخابات کا معرکہ دونوں جماعتوں کے لیے بقا کی جنگ ہے جو بھی ہارے گا وہ اگلے عام انتخابات میں اپنی rating کے لحاظ سے نیچے چلا جائے گا اور electables کا رخ دوسری طرف ہو جائے گا۔ electables ایسی تھرڈ فورس ہے جس کے بغیر کوئی بھی حکومت قائم کرنے کا خواب پورا نہیں کر سکتا۔ 
یہ الیکشن کافی دلچسپ ہو چکا ہے دونوں جماعتوں neck & neck پوزیشن میں ہیں ایک ایک ووٹ اور ایک ایک سیٹ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ مجموعی طور پر 25 ارکان پنجاب اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے تھے جس میں 5 مخصوص نشستوں والے بھی تھے جن میں خواتین اور اقلیتی ممبر شامل تھے تحریک انصاف کے لیے اس سے شرمناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے ممبران بھی انہیں چھوڑ گئے جنہیں پارٹی نے پلیٹ میں رکھ کر MPA کی سیٹ دی تھی۔ اس وقت 20 سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ان میں 10 سیٹیں وہ ہیں جو 2018ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتے اور تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا بقیہ 10 وہ ہیں جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتے مگر پارٹی پالیسیوں اور پارٹی کے اندر اختلاف رائے کے فقدان کی وجہ سے پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں چلے گئے یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہوں نے عثمان بزدار کا تختہ الٹا تھا اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پارٹی چھوڑ کر غلط کیا ہے تو اس فیصلے پر بھی سوچیں جس کی بنا پر عثمان بزدار کو 4 سال مسلط رکھا گیا۔ 
تخت لاہور کا دعویٰ اس کا حق ہو گا جس کے پاس 186 ممبران اسمبلی کے ووٹ کے پروانے ہوں گے جو اس وقت دونوں پارٹیوں کے پاس نہیں ہیں حمزہ شہباز کے پاس اس وقت 177 ووٹ ہیں اور پرویز الٰہی کے پاس 173 ہیں ان 20 سیٹوں میں اگر ن لیگ 9 پر بھی کامیاب ہو گئی تو حمزہ شہباز وزیراعلیٰ رہیں گے تحریک انصاف کے لیے معاملہ خاصا ٹیڑھا ہے کیونکہ انہیں 186 کا ہدف پورا کرنے کے لیے 13 سیٹیں درکار ہیں جو نا ممکن نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے قبل از وقت ہی دھاندلی اور جانبداری کا شور مچا رکھا ہے۔ 
آزاد ذرائع کا خیال ہے کہ تحریک انصاف 20 میں سے 5 سیٹیں بمشکل جیت سکتی ہے اور یہ پیش گوئی مذکورہ سیٹوں پر PTI کی پوزیشن دیکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔ PTI نے اپنی 10 سیٹوں پر بقا کی جنگ لڑنی ہے کیونکہ یہاں سے ان کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے پارٹی چھوڑگئے ہیں اور اب وہ لوگ ن لیگ کی طرف سے امیدوار ہیں۔ 
مجموعی طور پر 14 سیٹوں پر کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔ پی ٹی آئی جہاں ہار رہی ہو گی وہاں نتائج رکوانے کی کوشش کریں گے تا کہ حمزہ شہباز کا راستہ روکا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا 22 سالہ narrative موروثی سیاست کے خلاف رہا ہے مگر ضمنی الیکشن میں انہیں جہاں بھی موقع ملا ہے PTI نے موروثی سیاست کو فروغ دیا ہے رشتہ داروں اور طاقتورں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ 
خوشاب پی پی 3 کا ٹکٹ پی ٹی آئی ایم این اے عمر اسلم اعوان کے بھائی کو دیا گیا ہے۔ مظفر گڑھ کے دو حلقوں پی پی 272اور 273کے دونوں ٹکٹ وہاں کے فیوڈل جتوئی فیملی کو دیے گئے جو سردار ہیں۔ ملتان میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی پی پی 217سے امیدوار ہیں۔ لودھراں سے ن لیگ کے منحرف سابق ایم این اے سید اقبال شاہ کے بیٹے کو تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا ہے۔ پی پی 97فیصل آباد پنجاب اسمبلی کے سابق سپیکر افضل ساہی کے بیٹے کو ٹکٹ دیا گیا ہے جو اجمل چیمہ سے 2018ء میں ہار گئے تھے۔ اجمل چیمہ نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے تحریک انصاف میں شمولیت کی اور وزارت انجوائے کی۔ اب وہ ن لیگ کے امیدوار ہیں جن کے مقابلے میں تحریک انصاف نے پھر افضل ساہی کے بیٹے کو ٹکٹ دیا ہے یہ دوہری قلابازی ہے۔ 
لاہور سے محمود الرشید کے داماد کو اپنے سسر کی سیاسی وراثت کا حقدار قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف نے پی پی 158 سے میاں عثمان اکرم کو ٹکٹ دیا ہے۔ 167سے شبیر گجر کو ٹکٹ دیا گیا جو پی ٹی آئی کے سابقہ ٹکٹ ہولڈر کے بھائی ہیں۔ 170 سے ایم این اے کرامت کھوکھر کے بھتیجے ظہیر عباس کھوکھر کو ٹکٹ دیا گیا۔ پی پی 288 ڈی جی خان سے سابقہ گورنر ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف کھوسہ کو ٹکٹ دیا گیا ۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں یہ 20 کی 20 سیٹیں ن لیگ ہار گئی تھی جن میں 10 سیٹیں آزاد امیدوار لے گئے اور 10 تحریک انصاف جیت گئی اس لحاظ سے ن لیگ کسی ایک سیٹ پر بھی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتی مگر صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے ایک درجن سے زیادہ سیٹیں ن لیگ واضح طور پر جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ 
دونوں پارٹیوں نے super-rich امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے جن کے لیے 10، 20 کروڑ روپیہ خرچ کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ پاکستانی سیاست کی خصوصیت ہے یہاں مالی طور پر غیر مستحکم پارٹی ورکرز ساری عمر ورکرز ہی رہتے ہیں۔ پہلے بھاری معاوضہ دے کر پارٹی سے ٹکٹ خریدا جاتا ہے۔ اس کے بعد انتخابی مہم پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ایک عام آدمی ووٹ دے سکتا ہے لے نہیں سکتا۔ سیاست میں پیسے کی مداخلت کا جو سلسلہ ضیاء الحق کے بعد شروع ہوا تھا وہ زور شور سے جاری و ساری ہے جس میں تحریک انصاف نے بھی بہتی گنگا میں برابر ہاتھ دھوئے ہیں۔

مصنف کے بارے میں