پنجاب میں تبدیلی کا خواب

پنجاب میں تبدیلی کا خواب

پنجاب میں ایک بار پھر چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو تبدیل کر دیا گیا اور اپوزیشن یہ طعنہ دے رہی ہے کہ پنجاب میں تبدیلی لانے کے لیے وزیراعظم ایک بار وزیراعلیٰ کو تبدیل کر کے دیکھیں۔ اپنے موقف کی تائید میں وہ ایک سے بڑھ کر ایک لطیفہ بھی لے کر آ رہے ہیں۔ بزدار کے پیچھے سب کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ بزدار کس کی چوائس ہے اور کیا پنجاب میں تبدیلی سے عمران خان کو کوئی فائدہ ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کا جواب ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق تلاش کر رہا ہے۔پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور تحریک انصاف جوڑ توڑ کر کے یہاں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اب یہ کارکردگی پر منحصر ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک تحریک انصاف اس صوبے کے عوام سے انصاف کر پائے گی یا نہیں۔ اب تک کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے تسلی بخش قرار دیا جا سکے۔ عمران خان نے متعدد بار اپنا وزن عثمان بزدار کے پلڑے میں ڈالا ہے اور اب بھی وہ ان کے حامی نظر آتے ہیں۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ بزدار کو ہٹانے کا مقصد یہی ہے کہ اپنے لیے پنجاب میں مشکلات کھڑی کر لی جائیں۔ یہ منظر نامہ اس لیے بھی وزیراعظم کو موزوں لگتا ہے کہ وہ اسلام آباد سے پنجاب کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ پنجاب کی تاریخ بھی ایسی ہے کہ یہاں جس بھی طاقتور کو حکومت ملتی ہے اس کی نظریں اسلام آباد پر جم جاتی ہیں اور عمران خان نہیں چاہیںگے کہ پارٹی مزید گروہ بند ی کا شکار ہو۔

 سیاسی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے مگر وہ دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں بری طرح ناکام ہو گئی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی جس کے ساتھ ن لیگ نے میثاق جمہوریت کر رکھا ہے اور اب بھی وہ حکومت کے خلاف محاذ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بات کرتے ہیں مگر پنجاب میں حکومت سازی کی تشکیل کے وقت پیپلز پارٹی نے ن لیگ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اور جماعت ق لیگ تھی جس نے تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد بنا کر الیکشن لڑا اور تحریک انصاف اور ق لیگ نے مل کر حکومت سازی کا مرحلہ مکمل کر لیا۔مسلم لیگ ن بھی گو مگو کاشکار ہے اور پنجاب میں ابھی حالات سازگار نہیں ہے اس لیے وہ بزدار کو ٹف 

ٹائم دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔شہبازشریف مرکز کی سیاست کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ پنجاب کو وہ حمزہ شہبازشریف کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اور یہ انتظام ن لیگ کے اندرونی حلقوں کو بھی زیادہ موزوں نہیں لگتا  اس لیے عثمان بزدار ہوں یا کوئی اور اس سے ن لیگ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہیں گے کہ پنجاب کے حالات میں بہتری نہ آئے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں بری کارکردگی کو نعرے کے طور پر عوام کے سامنے لایا جا سکے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کسی جوڑ توڑ کے ذریعے حکومت بنا سکے۔ بھٹو صاحب کے بعد پنجاب پیپلزپارٹی کے لیے نو گو ایریا بن گیا ہے اور یہاں اسے تن تنہا حکومت بنانے کا موقع نہیں مل سکا۔ وزیراعلیٰ منظور وٹو نے پیپلزپارٹی کو ساتھ ملا کر حکومت بنائی تھی ۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی کیفیت اس طرح تھی جسے ق لیگ نے یرغمال بنا لیا تھا۔ پیپلزپارٹی کو بھی موجودہ انتظام موزوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب سے فارغ کرنے کے بعد ن لیگ کو لانا دراصل ن لیگ کو آئندہ عام انتخابات میں مزید مضبوط کرنا ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کی اپوزیشن کر رہی ہے۔ پرویز الٰہی ایک اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کی کارکردگی کسی بھی طور کسی سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے پنجاب میں بہت کام کیا ۔کئی نئے ادارے بنائے ۔ پنجا ب کی بیوروکریسی کے ساتھ مل کر کام کیا۔ پنجاب کے سیاسی خاندانوں کے ساتھ ان کے مضبوط روابط ہیں۔ پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت وہ اس وقت سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں ۔پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی سب سے زیادہ مخالفت تحریک انصاف کے اندر سے ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ایم پی ایز کا خیال یہ ہے کہ اگر بزدار کو تبدیل کرنا ہی مقصود ہے تو تحریک انصاف سے ہی کسی دوسرے کو موقع دیا جائے کیونکہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے سے تحریک انصاف کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہو گا۔تاہم اس حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا جارہا کہ اگرتحریک انصاف اور ق لیگ نے اگلے انتخابات میں مل کر لڑنا ہے تو پھر پرویز الٰہی اس پوزیشن میں ہوں گے کہ پنجاب میں پرفارمنس دکھا سکیں ۔ 

پنجاب میں اگر بزدار تبدیل ہوتے ہیں تو یہ صریحاً عمران خان کا ذاتی فیصلہ ہو گا۔ اپوزیشن دیکھو اور انتظار کرو کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی ساری سیاست بیان بازی تک محدود ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ پنجاب میں کام نہیں ہو رہے ہیں اور ترقی کا پہیہ رک گیا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان حالات میں کام کس صوبے میں ہو رہاہے۔ دو صوبوں میں تحریک انصاف حکومت میں ہے۔ بلوچستان میں بھی وہ حکومت کی اتحادی ہے اور سندھ میں پیپلزپارٹی اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے۔ کہیں بھی حالات اتنے اچھے نہیں کہ اسے مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ان حالات میں عثمان بزدار کی تبدیلی کی باتیں ہر دو چار ماہ بعد ہوتی رہیں گی۔ یہ نظام اسی وقت تک چلتا رہے گا کہ جب تک فیصلہ ساز کسی دوسرے پر انگلی نہیں رکھتے یا عمران خان کسی اور آگے لانے پر تیار نہیں ہوتے۔  جب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے وزیراعظم عمران خان چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو تبدیل کرتے رہیں گے۔ شاید انہیں بھی علم ہے کہ عثمان بزدار کے بجائے کام تو انہوں نے بیوروکریسی کی ٹیم سے ہی لینا ہے ، ایسے میں اپوزیشن کے وزیراعلیٰ کو تبدیل کرنے کے مطالبات پر عمران خان کی حکومت توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔تین برس گزر گئے ہیں اور اب عمران خان کی حکومت کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا ہے ایسے میں انہوںنے کوئی کارکردگی نہ  دکھائی تو وہ آئندہ ان کے لیے پنجاب سے حمایت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکے، ان حالات میں چہروں کی تبدیلی سے زیادہ نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر توجہ دی جانی ضروری ہے۔ پہلے بیوروکریسی سے جن افراد کو پنجاب میں لایا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ حکومت کے وژن کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کے کندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عمران خان کی توقعات پر پورا اتریں۔ عمران خان کو اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا کہ آئندہ انتخابات میں کوئی آئی جی پنجاب یا چیف سیکرٹری حتیٰ کہ عثمان بزدار سے ان کی کارکردگی کے حوالے سے باز پر س نہیں کرے گا ان تمام کے اعمال کا جواب دہ عمران خان کو ہونا ہے۔ویسے بھی پنجاب میں ہم یہ  دیکھ رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے لوگ ہر محکمہ اور ادارے کو چلانے کے جتن کر رہے ہیں اور وہ لوگ وزیراعلیٰ کے پسندیدہ ہیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ان کے ضلع سے ہے۔